پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ کمپنیزکی درندگی

 پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ کمپنیزکی


 درندگی

پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ کمپنیزکی درندگی
پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ کمپنیزکی درندگی 
پاکستان میں پرائیویٹ سکیورٹی  گارڈ کمپنیزکی درندگی عروج ہے
میرا دوست گارڈ کی ڈیوٹی کرتا ہے ۔

اس نے بتایا کہ اب جیسے نگران حکومت تنخواہ کے اضافے کا اعلان کیا ہے ۔

ویسے ھماری کمپنی سے لیٹر آیا جس فیکٹری میں میں ڈیوٹی کرتا ہوں ۔

وہ لیٹر   

TCS   

کارائڈر لیکر آیا اور میں نے وصول کیا ۔

میں آفیس میں جمع کروانے گیا تو آفیس کے منیجر نے میرے سے پوچھا کہ تم کو کمپنی کتنی تنخواہ دے رہی ہے ۔

میں نے بولا آگسٹ تنخواہ سے پہلے ھم کو ایکیس ھزار دےرہے تھی مگر آگسٹ کی تنخواہ پچیس ہزار بھیجی ہے۔

اس نے پوچھا کیوں؟ 

ھم نے تو چھ مہینے پہلے تمھاری تنخواہ پچیس ہزار کردی تھی پھر تم کو کمپنی نے کیوں نہیں دی؟

میں نے بولا سر معلوم نہیں مجھے ۔

پھر میں آفیس سے چلا آیا اپنی ڈیوٹی کی جگہ ۔

اور شام تک ڈیوٹی کی پھر سات بجے چھوٹی کر کہ گھر چلا آیا
اور میں نے سوچا کہ آپ سے ملوں ۔

پھر ماشاءالله آپ بہی مل گۓ ہیں آؤ چانھ پیتے ہیں ۔

پھر ھم دونوں ھوٹل پر گۓ اور چانھ کا آڈر دیا۔

اور تھوڑی دیربعد ویٹر چانھ لیکر آیا ھم دونوں چانھ پینے لگے۔

میں نے ایک گونٹ لیا پھر میں نے اس کو بولا یار دیکھ انسان کا پیٹ بھرنے والا ہے ہی نہیں ۔

جیسا کہ حدیث پاک میں ارشاد ہے ۔

بنی آدم کا پیٹ قبر کی مٹی بھر سکتی ہے یا جھنم کی آگ۔
جہاں تو ڈیوٹی کرتا ہے وہاں کے سیٹھ نے آپ کی تنخواہ چھ مہینے پہلے بڑھائی ہے اور یہ سکیورٹی والے کتنے ظالم ہیں  وہ بھی تم لوگوں کو نہیں دی افسوس ہے ۔

مگر یہ لوگ اتنا پیسہ لیکر کہاں جائیں گے ۔

آخری امت ہے آخری زمانہ ہے اس کے بعد قیامت آنی ہے ۔

سب کو مرنا ہے یہ لوگ سوچتے کیوں نہیں ہیں ۔

وہ خاموشی سے میری باتیں سنتا رہا ۔

اورھم نے چانھ کا کپ ٹبل پر رکھتے ہوئے اس کو بولا کہ یہ سب کھاؤ ہیں تم لوگوں کا حق کھایا ہے ۔

معاف نہ کرنا قیامت میں پکڑ کرنا ان کی پھر ھم بہی دیکھیں گے یہ پیسے دولت کیا کام آتی ہے ان کو ۔

پھر ھم دنوں اٹھے ھاتھ ملایا اور دنوں اپنے گھر کو چل دیۓ۔

پھر میں چلتے چلتے سوچنے لگایہ کیا ہے پاکستان میں لوگ اتنے بوکھے کیوں ہے۔

یہ دولت پیسہ مال ملکیت کے بغیر جانا ہے یہاں سے پھر دوسروں کا حق کھانے کاکیا فائدہ پھر وہ اللہ کے سامنے ھم سےماںگے گا ھم کہاں سے دیں گے ان کو؟ 

اور سوچتا رہا سوچتا رہا سوچتا چلا گیا ۔

No comments:

Powered by Blogger.