توبہ کرنے کےلیۓ انسان کوکیاکرناچاہیۓ

 توبہ کرنے کےلیۓ انسان کوکیاکرناچاہیۓ



نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِهِ الْکَرِیْمِ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَعَلٰی اٰلِهٖ وَاَزْوَجِهٖ وَاصْحَابِهٖ اَجْمَعِین

اما بعد

```اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّي٘تَ عَلٰٓى اِبْرَاهِيمَ وَعَلٰٓى اٰلِِ اِبْرَاهِيمَ اِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ```


```اللَّهُمَّ بَارِك٘ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰٓى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ اِبْرَاهِيمَ اِنَّكَ حَمِي٘دٌ مَّجِيدٌ```


توبہ کاحکم

قرآن مجید میں اللہ تعالی نےتوبہ کرنے اور گناہوں سےمعافی ماں گنے کا حکم دیتے ھوۓ۔


ارشاد باری تعالی


وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ


(سورہ ھود ۔آیت :3)


اور یہ کہ تم اپنے پرور دگار سے(اپنے گناہوں کی)معافی طلب کروپھر اسی کی طرف متوجہ رہو۔(یعنی توبہ کرو)

توبہ کا مطلب یہ نہیں کہ زبان سے توبہ توبہ کرتے رہواور ساتھ گناھ بہی کرتے رہو۔

افسوس کہ اکثر لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلاہیں,حالاںکہ ایسی توبہ در حقیقت توبہ جیسے عظیم عمل کے ساتھ مزاح اور استہزاء ہے۔ توبہ واستغفارکے سلسلے میں اھل علم نےقرآن وحدیث کےدلاٸل کو سامنے رکھ کرسچی توبہ کی جو شراٸط بیان کی ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔

توبہ کاطریقہ اور شراٸط

توبہ کرنے والے کو چاہیۓ کہ۔

  1. اپنےگناہوں کو فورا ترک کرے۔

  2. گزشتہ کیے ھوۓ گناہوں پر نادم و شرمندہ ھو۔

  3. پختہ عہد کرلے کہ آٸندہ گناہ کا کام نہیں کرے گا۔

  4. اگر اسنے ظلم کرتے ھوۓکسی کا حق چھینا ہےتو وہ حق مظلوم کو واپس کرےاور اس سے معاف کروالے۔

بعض اھل علم نےسچی توبہ کی شراٸط اور حدود وقیودمیں کچھ مزید تفصیلات بہی بیان کی ہیں جنہیں ھم بعض مثالوں کی روشنی میں یہاں درج کرتے ہیں۔

  1. صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیۓگناہ ترک کیا جاۓ,گناہ ترک کرنے کی کوٸی اور وجہ نہ ہو,مثلا ایک آدمی گناہ اسلیۓ چھوڑتا ہے لوگ اسکے خلاف باتیں کریں گے،یا اسلیۓ چھوڑتا ہےاس گناہ کی وجہ سے لوگ اسکے دشمن بن جاٸیں گے،تو ان باتو کے خوف سے گناہ چھوڑے جانے سے نہ کوٸی ثواب ہے اورنہ ہی اسے توبہ کہا جاۓگاکیوںکہ اس میں اللہ کی رضا شامل نہیں ہے ۔

  2. اسی طرح اس شخص کو دینی اصطلاح میں۔تاٸب۔ نہیں کہا جاسکتاجو اس نیت سے گناہ چھوڑے کہ اس گناہ کے ارتکاب سےاس کی حیثیت شہرت اور نیک نامی متاثرہوگی یا اس گناہ کی وجہ سے اسے ملازمت سے نکال دیاجاۓگا۔

  3. اسی طرح ہم اس شخص کو بہی تاٸب نہیں کہ سکتےجواپنی صیحت وتواناٸی 

کے زاٸل ہو جانےکےخوف سے گناہ چھوڑتاہے مثلا کوٸی شخص خطرناک متعدی امراض (ایڈز وغیرہ)

سے ڈرکر زناکاری چھوڑدےیااس لیۓبدکاری چھوڑےکہ اس سے اس کا جسم اورقوت حافظہ کمزور ہوجاٸیں گے۔ ظاھر ہے اس پر اسے کوٸی ثواب نہیں ملے گااور نہ ہی اس طرح اس کا وہ گناہ اللہ کے ہاں معاف ہوگا۔

  1. ھم اس شخص کو بہی تاٸب نہیں کہ سکتےجس نے چوری اس لیۓ چھوڑی کہ اسے گھر میں داخل ھونے کا کوٸی راستہ نہیں ملایاوہ اس مال کی تجوری (مال رکھےجانےکی الماری ) نہیں کھول سکایاوہ چوکیدارکے خوف سے واپس ھو گیا۔

  2. اسی طرح اسے بہی تاٸب نہیں کہا جاسکتاجس نےمحکمہ انسدادرشوت کے خوف سے رشوت نہیں لی۔


  1. اسی طرح وہ شخص بہی تاٸب نہیں کہلا سکتاجوغربت کی وجہ سے شراب اور نشہ آورچیزیں چھوڑ دے۔

  2. اسی طرخ وہ شخص بہی تاٸب نہیں کہلا سکتاجوخارجی عوامل کی وجہ سےاپنے گناہگارانہ ایرادےکو پورا کرنے سے عاجز آجاۓمثلا ایک شخص جوجھوٹ بولنے کا ایرادارکھتا ہےمگرزبان یا کوٸی عضوا شل ھوجانے کی وجہ سےوہ بول نہ سکےاوروہ زانی جس کو جماع کرنے کی طاقت ہی نہ رہی ہواوروہ چورجس کے ھاتھ پاٶں کسی حادثہ کی وجہ سےکام کرنا چھوڑدیں بلکہ ھم تاٸب اسے کہیں گےجونافرمانی کی خواہش کواللہ کی رضا کے لیۓمکمل طورترک کر دےاپنےگزشتہ گناہوں پراللہ کے حضور نادم ہوکیوںکہ نبی کریم محمد صلى الله عليه واله وسلم نےارشاد فرمایا۔

گناھ پرندامت وشرمندگی ہی توبہ ہے۔

  (مستدرک حاکم کتاب توبہ)

اس لیۓتوبہ کرنے والے کوچاہیۓکہ وہ گناہ کی قباحت اور نقصان کواچھی طرح سے سمجھےاورجب گزشتہ گناہوں کویادکرےان کےساتھ لذت و سروروشعوربیدارنہ کرےاورنہ ہی آٸندہ دوبارہ کرنے کی خواہش کرے۔


اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم کاایک ارشاد گرامی


دنیا میں چار طرح کے لوگ ھوتے ہیں

  1. ایک وہ شخص جسےاللہ نےمالاورعلم دونوں چیزیں دےرکھی ہوں اور وہ ان کے بارے میں اپنے پروردگارسے

ڈرتاہواورصلہ رحمی کرتا ہواس میں اللہ تعالی کا جو حق ہےاسےپہچانتا

ہوتویہ آدمی انجام میں سب سے اعلی مرتبہ پر ہے۔

  1. دوسراوہ شخص جسےاللہ نے علم تو دیا ہےلیکن مال نہیں البتہ وہ نیت کا سچا ہےاورکہتاہے

اگرمیرےپاس مال ھوتامیں فلاں آدمی جیسےاچھےکام کرتااسےشخصکوبہی اسک کی نیت کے مطابق اجرملےگااوریہ دونوں(یعنی پہلا اوردوسرا)اجر

میں برا بر ہیں۔

  1. تیسراوہ شخص جسے اللہ نے مال تو دیاہے لیکن علم نہیں وہ سوچےسمجھے بغیراپنے مال میں تصرف کرتاہےاس مال کے بارے میں وہ نہ اللہ سے ڈرتاہےنہ صلہ رحمی کرتا ہےاورنہ ہی اس میں اللہ کا حق سمجھتاہےاس شخصکا مرتبہ سب سے بدتر ہے۔

  2. چوتھاشخص وہ ہےجسےاللہ نےنہ مال دیا نہ علم البتہ وہ کہتاہےکہ اگرمیرےپاس مال ہوتامیں فلاں آدمی جسے (برے)کام کرتاایسے شخص کے ساتھ اس کی (اس بری )نیت کے مطابق سلوق ہوگااورگناہ کے بوجھ میں (یہ اور جس کی مثال سانے رکھتا ہے)دونوں برابر ہیں۔




No comments:

Powered by Blogger.